نظریہ مفرد اعضاء کی ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ امراض کی پیدائش مفر اعضاء یعنی گوشت ،پٹھے اور غدد میں ہوتی ہے ۔اور اس کے بعد مرکب اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے ۔ علا ج کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے حیوانی ذرہ خلیہ یا سیل (Cell) سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں بس یہی ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘ہے۔
مجدد طب ؒ نے ایک تہائی صدی تک متواتر شب و روز تحقیق و تجدید پر محنتِ شاقہ صرف کی ۔طب کے بحرِعمیق میں اتر کر نیا گوہر نایاب تلاش کیا ۔جسے ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘کا نام دے کر دنیا ئے طب کی خدمت میںپیش کر دیا ___جو اَب’’ قانون مفرد اعضاء ‘‘کے نام سے موسوم و معروف ہو چکا ہے ۔
قانون مفرد اعضاء کا مقصد
طب قدیم کا علم و فن تشخیص و تجویز کے سلسلے میں کیفیات و امزجہ و اخلاط تک ہی محدود تھا اور ماڈرن میڈیکل سائنس اس ایٹمی دور تک اپنی تدقیقی تحقیقات کے نتیجے میں صرف منافع الاعضاء (PHYSIOLOGY)کا ہی کارنامہ انجام دے سکی ۔ جب کہ مجدد طب ؒ نے کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دیتے ہوئے طب کو اس انداز میں پیش کیا کہ ایک طرف طب قدیم کی اہمیت واضح ہو گئی اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جس طریقہ علاج میں کیفیات امزجہ اور اخلاط کو مد نظر نہیں رکھا جاتا وہ نا صرف غلط بلکہ غیر علمی ،غیر سائنسی اور عطائیانہ علاج ہے ۔کیفیات ، امزجہ اور مفرد اعضاء کی باہمی تطبیق سے طب قدیم میں زندگی پیدا ہوگئی اور ساتھ ہی اعضاء کے افعال کے علاج و درستی کی صورت سامنے آگئی جس کے نتیجے میں تجدید طب کا سلسلہ قائم ہوگیا اور ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘قدیم و جدید جملہ طریقہ ہائے علاج (طبوں ) کے لئے معیار اور کسوٹی بن گیا ہے ۔
قانون مفردا عضاء کی تشریح :
نظریہ مفرد اعضاء میں حیوانی ذرہ (CELL)کو جسم کی بنیاد اول (فرسٹ یونٹ ) قرار دینے کے بعد کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دے کر ان کے تحت امراض و علامات کی ماہیت و حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
ماڈرن میڈیکل سائنس (فرنگی طب )نے بھی جسم انسانی کی اصل بنیاد پہ چار انسجہ(TISSUES)تسلیم کئے ہیں ۔جن کو
اعصابی انسجہ (NERVOUS TISSUES)
عضلاتی انسجہ(MUSCULAR TISSUES)
قشری انسجہ (EPITHELIAL TISSUES)
الحاقی انسجہ (CONNECTIVE TISSUES)کہتے ہیں ۔
مجدد طب و بانی نظریہ مفرد اعضاء حضرت صابر ملتانی ؒ نے ان چاروں انسجہ کو چاروں اخلاط سے تطبیق دے دی ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء میں مفردا عضاء اور اخلاط ایک ہی چیز ہیں یا بالفاظ دیگر مفرد اعضاء مجسم اخلاط ہیں ۔خلیات یا حیوانی ذرات (CELL) سے انسجہ TISSUES) ، انسجہ سے مفرد اعضاء (SIMPLE ORGANS) اور مفرد اعضاء سے مرکب اعضاء (ComPOUND ORGANS) بنتے ہیں ۔ غرضیکہ خلیہ ہی سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے اور مختلف قسم کے خلیات کے ملاپ سے جسم کی تکمیل ہوتی ہے ۔ گویا اناٹومی (ANOTOMY)کے پہاڑوں کو قانون مفرد اعضاء کے ریڈار نے ڈھانچہ دماغ ،جگر اور قلب کے روپ میں دکھا کر دنیائے طب کی شرح صدر کردی ہے ۔ قدرت نے اعضاء کی ترتیب و ترکیب یوں رکھی ہے کہ
’’اعصاب ‘‘ اوپر رکھے ہیں اور ہر قسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔
’’غدد‘‘ کو درمیان میں رکھا ہے اور غذا کی ترسیل ان کے ذمے ہے۔
’’عضلات ‘‘ سب سے نیچے (اندر) رکھے ہیں اور تمام قسم کی حرکات ان سے متعلقہ ہیں ۔
بس یہی طبعی افعال سر انجام دیتے ہیں ۔اور نظریہ مفرد اعضاء کے مطابق اعضائے رئیسہ دل ،دماغ اور جگر حیاتی اعضاء (LIFE ORGANS) ہیں جو کہ بالترتیب عضلات ، اعصاب اور غدد کے مراکز ہیں ۔ ان کے افعال میں افراط ، تفریط اور ضعف سے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔اور انہیں مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے ایک حیوانی ذرہ (CELL)سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوکر صحت قائم اور ’’تن‘‘درست ہوجاتا ہے ۔ ’’تن درستی ‘‘ ہی طب کا مطلوب و مقصود ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء کا تخلیقی اصول
یہ نظریہ فطرت کا ایک اصول ہے جو مادہ اور جوہر سے ماخذ ہے ۔’’یعنی جوہر سے مادہ پیدا ہوتا ہے ‘‘گویا مادہ کی اصل جوہر ہے اور ہر چیز اپنی اصل کی طرف راجع ہوتی ہے ___’’کل شیء یرجع اصلہ ‘‘ ۔
اس لئے جوہر و مادہ اپنے افعال و اثرات کی حیثیت سے یکساں یعنی ایک جیسے خواص و فوائد رکھتے ہیں ۔مراحل کے لحاظ سے جو ہر مادہ ،مادہ سے عنصر ،عنصر سے خلط ،خلط سے مفرد عضو اور مفرد اعضاء کے مجموعے سے جسم ترکیپ پاتا ہے ۔ گویا جوہر مجسم ہو کر مادہ بن جاتا ہے جب مادہ میں تخصیص ہوتی ہے تو وہ عنصر بن جاتا ہے اور عناصر محلول بن جاتے ہیں تو اخلاط پیدا ہوتی ہیں اور اخلاط مجسم ہو کر مفرد اعضاء بن جاتے ہیں یہی مفرد اعضاء علم الابدان اور فن طب کی بنیاد ہیں ۔
محرکاتِ زندگی
جسم میں اعضائے کا کنٹرول اعضائے رئیسہ ___دل، دماغ اور جگر ___ کے پاس ہے ۔
اگر جسم میں رطو بت زیا دہ ہوگی تَو وہ اعصاب کو تیز کر دے گی ۔ اگرحرارت زیا دہ ہو گی تَو وہ غدد کو تیز کر دے گی ۔ اسی طرح اگر ہوا(ریاح) کی زیادتی ہو گی تَو وہ عضلات کے فعل کو تیز کر دے گی۔
اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ :
مرطوب اغذیہ اعصاب میں تقویت پیدا کر تی ہیں ۔ گرم اغذیہ غدد کو طا قت دیتی ہیں ۔ خشک اغذیہ مقویٔ عضلات ہیں ۔
یا دوسری لفظوں میں :
اگر جسم میں رطو بات بڑھ جا ئیں تَو اعصاب میں تحریک بڑھے گی ۔ حرار ت بڑھ جا ئے تَو غدد و جگر میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔ خشکی و ریاح کا غلبہ ہو تَو عضلا ت میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔
اس کے بر عکس:
اعصاب کے فعل میںتیزی سے رطو بات بڑھ جا تی ہیں ۔ غدد کے فعل میں تیزی سے حرارت بڑھ جا تی ہے ۔ عضلا ت کے فعل میں تیزی سے خشونت و ریاح بڑھ جا تے ہیں ۔
گو یا اعضائے رئیسہ __ رطو بت ،حرارت اورہوا __ لازم وملزوم ہیں اوریہی تینوں فطری اجزاء ہیں ، جو کا ئنات میں با رش ، آندھی اور گر می کی صُورت میں نظر آ تے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ محرکاتِ زندگی صرف تین ہیں :
ہوا ، آگ ، پانی یعنی ریاح ، حرارت ، رطوبت
ریاح (ہوا) محرکِ عضلا ت ، حرارت محرکِ غدد اور رطوبت محرکِ اعصاب ہے ۔
کسی طب کے اصولی ، با قاعدہ ا ور فطری ہو نے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا وی دونوں صورتیں پا ئی جائیں۔ قانون مفرد اعضا ء کا یہی کمال ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا ری صورتوں کے ساتھ ساتھ کائنات کے ارکان و امزجہ اور قویٰ و ارواح کی تمام صورتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں ۔ گو یا زندگی اور کائنات کے ذروں کو ایک دوسرے میں سمو دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر کا ئنات کا ذرہ بھی حرکت کر تا ہے تَو زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے ۔ اگر زندگی کے ذرے میں حرکت پیداہو تَو کائنات تک کو متا ثر کر تا ہے ۔ کا ئنات میں پا ئی جا نے والی تمام اشیا ء کے مزاج میں دودو کیفیات پا ئی جا تی ہیںجیسے کو ئی گرم خشک ، کو ئی گرم تر اور کو ئی خشک سردوغیرہ ۔ یہی کیفیات موسم کی صورت میں دُنیا بھر کی اغذیہ ، ادویہ اور دیگر اشیاء کی نمودکا با عث بنتی ہیں ۔
نباتات انسان و حیوان کی بہترین خوراک ہیں ۔ بعض نباتا ت اگر چہ انسان کی خوراک نہیں ، لیکن یا تَو وہ ادویہ کا روپ دھا ر لیتی ہیں یا پھر حیوانات کی غذا بنتی ہیں ، پھر یہ حیوانات انسان کی غذا بنتے ہیں ۔ غرضیکہ اسی آب و ہوا کے عمل دخل سے یہ انواع و اقسام کی اغذیہ و ادویہ حاصل ہو تی ہیں ۔یہی اغذیہ نظامِ انہضام سے گزر کر خون کا روپ دھا ر لیتی ہیں ۔ ثابت ہوا کہ آب و ہوا کیفیات کامجموعہ ہے ۔ انسانی مزاج بھی کیفیات ہی کا مجموعہ ہے ۔ مظاہرِ قدرت کی روشنی میں سال بھر کے مہینوں کی موسمی تبدیلیوں کا گیا رہ (۱۱) سالہ ڈیٹا لے کر اس کا اوسط نکالا گیا، جس سے موسم کی سالانہ تبدیلیوں کا نقشہ کھل کر سامنے آگیا ۔ قدرت موسم کی دونوں کیفیتوں کو ایک دم نہیں بدلتی بلکہ گرمی خشکی حد سے تجا وز کر جا ئے تَو بر سات کے ذریعے اسے گرمی تری میں بدل دیا جا تا ہے ۔
جو نفس میں ہے ، وہی آفاق میں ہے کی مسلمہ حقیقت کے تحت انسانی جسم الوجود کا کو ئی موسم حد سے تجاوز کر تا ہے تَو امراض پیدا ہو تی ہیں ۔ فطرت کے اس قانون پر غور کر نے سے درس ملتا ہے کہ جسم کا جو مزاج حد سے تجا وز کر گیا ہے ، اس کی ایک کیفیت بدل دو یعنی اگر مزاج گرم خشک ہے تَو اسے گرم تَر کر دو ، جسم کے تمام دُکھ دُور ہو جا ئیں گے ۔ اس طرح جسم الوجود کے مزاج کو بھی ہم موسم کا نام دے سکتے ہیں۔جیسے فروری کا موسم خشک سرد ہو تا ہے ، اسی لئے اس ماہ میں لوگ خشک سرد کیفیات سے پیدا ہونے والی امراض کا شکا ر ہو تے ہیں ۔ مثلاً انسانی جلد کا خشکی سردی سے پھٹنا ، خصوصاً چہرہ ، ہا تھ ، تشقق الشفتین ، پا ؤں کی ایڑیاں پھٹنا ، ضیق النفس وغیرہ ۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ایسا کچھ ان لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے ، جس کے جسم کا اندرونی موسم بھی عضلاتی اعصابی یعنی خشک سرد ہو تا ہے ۔
0 Comments
Post a Comment