Mango - Mangifera Indica - Anacardiaceae - Mangifera - آم

 آم (Mango)




 

اردو : آم

لاطینی : Mango

فارسی: انبہ

انگریزی : Mango

عربی : مانجو

سائنسی : Mangifera indica

فیملی : Anacardiaceae

جنس : Mangifera

 

ایک درخت کا پھل ہے۔ آم پاک و ہند کا خاص میوہ ہے دوسرے ملکوں میں نہیں ملتا اور دنیا کے سب میووں کا بادشاہ ہے۔ اس کا درخت ساٹھ ستر فٹ بڑا ہوتا ہے اس کا تنا سیدھا اور گولائی اس کی پندرہ فٹ ہوتی ہے۔ اسکے ماگھ سے جیٹھ (15 جنوری – 15 جون) تک چھ انچ سے نو انچ تک لمبے نوکدار پتے لگتے ہیں۔ یہ پتے شروع میں لال ہوتےہیں پھر گہرے ہرےہوجاتےہیں۔ درخت پچاس ساٹھ برس تک پھیلتا ہے۔ پھل اول میں سال بہ سال بہتر ہوتا ہے اور آخر بالعکس اور اس کے پتوں میں بھی اس کے پھل کی خوشبو آتی ہے۔ اس میں کچھ پیلے رنگ کے خاص قسم کے خوشبو والے پھولوں کے گچھے لگتے ہیں۔ یہ پھول ماگھ  سے چیت(15 جنوری – 15 اپریل)  تک آتے ہیں۔ بیساکھ سے اساڑھ (15 اپریل – 15 جولائی)  بلکہ اس سے بھی بعد تک پھل لگتے ہیں۔  اس سے ایک قسم کا گوند نکلتا ہے اس کی گٹھلی کی مینگ سے تیل نکالا جاتا ہے اس کا پھل ابتداء میں بہت بکبکا ہوتا ہے رفتہ رفتہ گھٹا پڑتا ہے بعد اس کے شیریں ہو جاتا ہے۔ اس کے کچے پھل سے اچار مربہ وغیرہ تیار کیا جاتا ہے۔ گیلانی نے لکھا ہے کہ یمن اور افریقہ کے اطراف میں سوڈان کے شہروں کے پاس اور عمان کے جانب جو آپ پیدا ہوتا ہے وہ قد میں بڑے آلو بخارے، اخروٹ، سیب اور بڑی ناشپاتی  کے ہوتا ہے اور درمیانی خربوزے کے برابر بھی ہوتا ہے۔ بہتر آم شیریں شاداب بے ریشہ خوشبودار ہے ۔ قلمی سے تخمی زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ اس کے پتلا ہونے سے نفخ بھی کم پیدا کرتا ہے۔ قلمی سے نفخ اور تبخیر زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ قلمی دیر ہضم اور ثقیل ہے۔ یہ پھل پاک و ہند کے سوا اور مقاموں میں با افراط پیدا نہیں ہوتا اور نہ ایسا مزیدار ہوتا ہے جیسا کہ پاک و ہند کا۔ قلمی آم کا درخت چھوٹا ہوتا اور جلد پھل دیتا ہے۔ تخمی آم کا درخت لمبا اور دیر سے پھل دیتا ہے۔

 

مزاج:۔

 پکا شیریں آم گرم و تر

کچا آم : سرد خشک

 

فوائد:۔ میٹھا آم اعضائے رئیسہ ارواح، معدہ، امعاء، مثانہ، گردہ، باہ، سانس لینے کے اعضاء اور مری کو طاقت دیتا ہے۔ بدن کا رنگ صاف کرتا ہے۔ مصفی خون ہے۔ دردسر، بواسیر، اسہال، بواسیری، سنگرہنی، قولنج، کھانسی اور حرار صفراء دور کرتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ بدن کی سستی مٹاتا ہے۔ پیشاب زیادہ لاتا ہے۔ اس سے اجابت کھل کر آتی ہے۔ قبض باقی نہیں رہتی۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ خفقان کے لیے نافع ہے۔ حکیم علی نے شرح مفردات قانون میں لکھا ہے کہ اس میوے کے صورت گردے کے ساتھ بہت مشابہت رکھتی ہے۔ میں سمجھا کہ گردے کو طاقت بخشے گا۔ اس لئے میں نے امراض گردہ میں استعمال کیا بہت مفید پایا یہاں تک کہ تپ دق (Tuberculosis) میں بھی جو گردے کے مشارکت سے تھی استعمال کرنے سے نفع ہوا اور تپ دق زائل ہو گئی۔

 

کچا آم صفراء کو تسکین دیتا ہے۔ بھوک پیدا کرتا ہے۔ بلغمی و سوداوی مزاجوں کو مضر ہے۔ سوداء پیدا کرتا ہے۔ گردے اور پھیپھڑے اور باہ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ شکر اس کی مصلح ہے۔ انبہ خام گردے اور مثانے کی پتھری توڑتا ہے اور بالخاصیت حمل کو گراتا ہے۔ آم کا اچار صفراوی مزاج کو مفید ہے۔ بھوک بڑھاتا ہے ورم طحال کو نافع ہے۔ آم کا مربہ دل اور معدے کو قوت دیتا ہے منہ میں خوشبو پیدا کرتا ہے۔ خفقان اور بواسیر کے لئے نافع ہے۔ آم کھا کر اوپر سے دودھ پینے سے بدن نہایت قوی ہو جاتا ہے۔ تراش کر کھانے سے چوسنا اچھا ہے۔

 

اطباء کہتے ہیں پکا شیریں آم دل کو خوش رکھتا منہ کی بے مزگی کو دور کرتا بدن کو فربہ کرتا باہ کو قوت دیتا بلکہ تمام اعضاء کو قوت پہنچاتا ہے۔ اجابت کھل کے آتی ہے بھوک خوب بڑھاتا ہے۔ بدن کا رنگ نکھارتا ہے مگر بادی پیدا کرتا ہے جسے دست آتے ہوں اسے مضر ہے۔ پکے آم کا رس رحم اور پھیپھڑے اور آنتوں میں سے خون جاری ہونے کوروکتا ہے۔ کچے آم کو پیس کر آنکھ پر باندھنے سے آنکھ کا درد بند ہو جاتا ہے۔ امچور اور سیندھے نمک کو پانی کے ساتھ پیس کر لیپ کرنے سے داد مٹتا ہے۔ اس کا اچار کھانے سے تلی گھٹ جاتی ہے۔ ایک سال پرانے اچار کا تیل لگانے سے گنج دور ہوتا ہے۔

 

0 Comments