منکہ ہندی: عباسی دور کا ہندو طبیب اور یونانی طب کے ترجمہ کا علمبردار

تعارف

اسلامی طب کی تاریخ میں عباسی دور خلافت (750ء تا 1258ء) کو سنہری دور کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب دنیا نے یونانی، ایرانی، اور ہندی علوم کو جذب کر کے ایک نئے سائنسی و طبی ورثے کی بنیاد رکھی۔ اس علمی تحریک میں متعدد غیر مسلم اور غیر عرب طبیبوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک ممتاز نام “منکہ ہندی” (Manaka al-Hindi) کا ہے جو نہ صرف ماہرِ طب بلکہ علمی ترجمہ نگاری کا بھی اہم ستون تھا۔

 

منکہ ہندی کی تاریخی حیثیت

منکہ ہندی آٹھویں صدی عیسوی میں برصغیر ہند سے تعلق رکھنے والا ایک مشہور ہندو طبیب تھا۔ اسے عباسی خلیفہ منصور (حکومت: 754ء – 775ء) نے بغداد آنے کی دعوت دی، جہاں اس نے یونانی اور سنسکرت طب کی کتابوں کے عربی تراجم میں حصہ لیا۔ اس کا نام متعدد مسلم مؤرخین اور طبی ماخذات میں محفوظ ہے جن میں خاص طور پر ابنِ ندیم، ابنِ ابی اصیبعہ، اور الرازی قابل ذکر ہیں۔

 

علمی خدمات

1. سوسروتا اور چارک کی کتب کا تعارف

منکہ ہندی نے سنسکرت میں موجود ہندوانہ طب کی کتب جیسے “سُشروتا سمہتا” (Sushruta Samhita) اور “چارک سمہتا” (Charaka Samhita) کا عربی میں تعارف کرایا۔ اگرچہ ان کتابوں کے اصل تراجم ناپید ہیں، لیکن ابنِ ندیم اور دیگر مورخین نے ذکر کیا ہے کہ منکہ نے طبِ ہندی کے بنیادی اصول عباسی دربار تک پہنچائے۔

 

2. یونانی و ہندی طب کا امتزاج

منکہ کی سب سے اہم خدمت یونانی اور ہندی طبی نظریات کے مابین پل بنانا تھا۔ اس نے ہندی طب میں دوشوں (دوش، یعنی وات، پِت، کَف) کے تصور کو اسلامی طبی فلسفہ سے ہم آہنگ کیا۔ اس امتزاج نے عباسی دور میں طب کو ایک جامع اور کثیرالثقافتی سائنس میں تبدیل کیا۔

 

3. علم الادویہ اور نباتاتی علم

منکہ ہندی نے مختلف ہندی جڑی بوٹیوں اور دواؤں کا تعارف کرایا جنہیں بعد میں عربی طبی کتب جیسے “الحاوی” (الرازی) اور “القانون” (ابنِ سینا) میں شامل کیا گیا۔ مثال کے طور پر، اشوگندھا، ہلدی، آملہ، اور نیِم جیسی جڑی بوٹیاں اسلامی طب کا حصہ بن گئیں۔

 

عباسی دربار میں مقام

خلیفہ منصور نے جب بغداد کو دارالحکومت بنایا تو اس نے علمی ترجمہ جات کے لیے بیت الحکمہ (House of Wisdom) قائم کیا۔ منکہ ہندی ان ابتدائی غیر عرب مترجمین میں شامل تھا جنہوں نے نہ صرف طب بلکہ نجوم اور کیمیا جیسے علوم میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ مؤرخین کے مطابق، خلیفہ منصور نے منکہ کو عزت و احترام سے نوازا اور اس کی رائے کو علمی منصوبوں میں اہمیت دی۔

 

سوانحی تذکرہ جات

ابن ندیم کی "الفہرست"

ابنِ ندیم (متوفی 995ء) اپنی کتاب “الفہرست” میں منکہ ہندی کو ایک ماہر طبیب اور مترجم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، منکہ نے ہندوستانی طب کے نظریات کو عرب دنیا میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 

ابن ابی اصیبعہ کی "عیون الانباء فی طبقات الاطباء"

ابنِ ابی اصیبعہ (1203–1270ء) اپنی مشہور طبی سوانحی کتاب میں منکہ ہندی کا ذکر "الاطباء الہند" کے تحت کرتے ہیں اور اسے علم طب میں ماہر اور بغداد میں موجود ابتدائی غیر مسلم اطباء میں شمار کرتے ہیں۔

 

منکہ ہندی کا اثر و رسوخ

منکہ ہندی کی خدمات کا اثر عباسی علمی تحریک پر گہرا رہا۔ اس کی کوششوں کے ذریعے:

طب ہندی کے اصول عربی و اسلامی دنیا تک پہنچے۔

ہندی ادویہ و جڑی بوٹیاں اسلامی میڈیکل پریکٹس کا حصہ بنیں۔

ترجمہ نگاری کے رجحان کو فروغ ملا، جس سے بعد میں حُنَین بن اسحاق، ثابت بن قرہ، اور دیگر مشہور مترجمین نے فائدہ اٹھایا۔

 

منکہ ہندی صرف ایک طبیب نہیں بلکہ ایک ثقافتی سفیر تھا جس نے ہندوستانی طبی ورثے کو عباسی خلافت کی علمی تحریک میں سمو دیا۔ اس کی خدمات نہ صرف عباسی دور کے علمی احیاء کا حصہ تھیں بلکہ آج بھی طب کی تاریخ میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔ منکہ ہندی کا ذکر اس امر کی دلیل ہے کہ علم و فنون کی ترقی کسی ایک قوم یا مذہب کی میراث نہیں بلکہ ایک مشترکہ انسانی کوشش ہے۔

 

مصنف:

غلام محی الدین – طبی مؤرخ، بلاگر، اور اسلامی و ہندی طب کے درمیان روابط پر تحقیقی کام کے مصنف۔

حوالہ جات:

ابن ندیم، الفہرست

ابن ابی اصیبعہ، عیون الانباء

Subhash Ranade and Rajendra Deshpande, History and Philosophy of Ayurveda

http://www.sacred-texts.com/hin/av.htm