حکیم واجد علی خان – علم و حکمت کا روشن چراغ
حکیم واجد علی خان، فرزند مولانا حکیم سید علی خان، ریاست جے پور کے ممتاز
اطباء میں شمار ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف ایک باکمال حکیم تھے بلکہ ایک محقق، مدرس اور
قوم و ملت کے ہمدرد انسان بھی تھے۔ ان کا تعلق اس خانوادۂ علم و فضل سے تھا جس نے
طب و حکمت کے میدان میں بلند مقام حاصل کیا۔ آپ کی ذات کو دیکھ کر حکیم مسیح
الزماں مرحوم کے خاندان کی علمی عظمت کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔
علمی و خاندانی پس منظر
آپ نے طب کی تعلیم اپنے والدِ محترم، مولانا حکیم سید علی خان سے حاصل کی اور
عملی تربیت بھی انہی کے مطب میں مکمل کی۔ معقولات کے میدان میں آپ کو یہ اعزاز
حاصل تھا کہ آپ نے ہندوستان کے معروف فاضل، شمس العلماء مولانا مولوی عبد الحق خیرآبادی
کے شاگرد، مولوی سید مظہر الحسن فیروزآبادی سے تعلیم حاصل کی۔ ادب کی تعلیم مولوی
محمد غضنفر علی خان سے پائی۔ نوجوانی ہی میں آپ فارغ التحصیل ہو گئے اور تدریس و
تصنیف کا سلسلہ شروع کیا۔
طب و تدریس
آپ جے پور میں مستقل مطب کرتے تھے اور اہلِ ریاست و رؤساء کے معالج کی حیثیت
سے باہر کے شہروں، مثلاً کرنال اور پٹیالہ، میں بھی تشریف لے جاتے تھے۔ آپ طب و
منطق کی درسی کتب پڑھاتے تھے اور اکثر ان پر حواشی و شروح بھی تحریر فرماتے تھے۔
اپنے والد کی طرح آپ بھی غیر ضروری مرکبات کے استعمال سے گریز کرتے اور علاج میں
سادہ و مؤثر اصولوں کو ترجیح دیتے تھے۔
طبی خدمات اور کامیابیاں
جے پور میں طاعون (پلیگ) کی وبا کے دوران آپ کو جو کامیابیاں حاصل ہوئیں، وہ
اس شہر کے ہر فرد کو یاد ہیں۔ آپ نے طاعون کے متعلق ایک معلوماتی رسالہ بھی تحریر
کیا تھا، جو بدقسمتی سے شائع نہ ہو سکا۔ طب کے ساتھ ساتھ آپ جدید علوم سے بھی فی
الجملہ آگاہ تھے اور قومی و تعلیمی معاملات میں بھرپور دلچسپی رکھتے تھے۔
قومی و تعلیمی خدمات
آپ نے جے پور میں تعلیم کی ترویج کے لیے ’’انجمن معین التعلیم‘‘ کے نام سے ایک
ادارہ قائم کیا، جس کے آپ کئی سال تک سیکریٹری رہے۔ اس انجمن کے زیرِ اہتمام ایک
مدرسہ بھی قائم کیا گیا، جہاں ابتدائی سطح کی انگریزی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا
بھی باقاعدہ انتظام تھا، اور اسلامی شعائر کی پابندی کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔
اگرچہ انجمن بعض وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر کمزور حالت میں تھی، تاہم یہ امید
کی جاتی تھی کہ جلد یا بدیر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گی۔
علاج کے نمایاں واقعات
حکیم صاحب نے اپنے کیریئر میں متعدد معرکہ آرا علاج کیے۔ ایک حیرت انگیز واقعہ
علاقہ پٹیالہ سے تعلق رکھتا ہے، جہاں ایک مریض کئی سال سے پیٹ کی شدید سرخی اور
جلد کی سختی کا شکار تھا۔ فمِ معدہ سے ناف تک کی جلد نہایت درشت ہو چکی تھی۔ مختلف
اطباء اور ڈاکٹروں کے علاج سے مایوس ہو چکا تھا۔ حکیم صاحب نے محض اسپغولِ مسلم
پارچہ سفت کا ضماد تجویز کیا۔ صرف ایک بار کے استعمال سے چوتھائی سرخی ختم ہو گئی،
اور چند روز کے استعمال سے مرض مکمل طور پر رفع ہو گیا۔
اختتامیہ
حکیم واجد علی خان اپنے وقت کے علم و فن کے امین، ایک کامیاب معالج اور معاشرے
کے مخلص خادم تھے۔ ان کی زندگی علم، خدمت، سادگی اور اخلاص کا نمونہ تھی۔ ان کی طبی
خدمات، اصلاحی افکار اور قومی جذبہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
0 Comments
Post a Comment