حکیم سید شاہ محمد حمید بہاری فردوسی
برصغیر کی سرزمین ہمیشہ سے علم و حکمت، روحانیت اور طبابت کا گہوارہ رہی ہے۔
انہی درخشندہ شخصیات میں ایک روشن نام حکیم سید شاہ محمد حمید بہاری فردوسیؒ کا بھی
ہے، جو نہ صرف علم طب میں مہارت رکھتے تھے بلکہ روحانیت کے بھی عظیم وارث تھے۔
🏠 نسب و خاندانی پس منظر:
آپ کا تعلق بہار شریف (ضلع پٹنہ) کے معروف محلہ خانقاہ سے تھا۔ آپ کا شجرۂ نسب
حضرت مخدوم الملک شاہ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ سے جا ملتا ہے، جو چشتیہ سلسلے
کے جلیل القدر بزرگ اور سلاطینِ وقت کے روحانی پیشوا تھے۔
آپ کے والد ماجد سید شاہ امین احمد فردوسیؒ، اولیائے کبار اور مشائخ عام میں
سے تھے، اور حضرت مخدوم الملک کے سجادہ نشین ہونے کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل تھا۔
آپ کا خاندان بہار اور بنگال کے علمی، روحانی اور طبی حلقوں میں انتہائی معزز و
مشہور تھا۔
📚 علمی سفر اور طب کی طرف رجحان:
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے خاندان کے روایتی علمی ماحول میں حاصل کی۔ بعد ازاں
آپ کو علم طب سے غیرمعمولی شغف ہوا، جس کی تکمیل کے لیے آپ نے تین سال لکھنؤ میں قیام
فرمایا۔ یہاں آپ نے اس وقت کے ممتاز اطباء حکیم عبدالعزیز اور حکیم محمد عبدالحفیظ
کے زیرسایہ طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
آپ نے کچھ مدت کے لیے ضلع چھپرہ میں بھی قیام فرمایا، مگر وہاں کی آب و ہوا آپ
کے مزاج سے مطابقت نہ رکھ سکی، اس لیے وہاں طویل قیام مناسب نہ سمجھا۔ بعد ازاں آپ
شہر گیا واپس تشریف لائے اور یہاں طب و حکمت کی ترویج میں مصروف ہو گئے۔
🏫 مدرسہ طیبہ، گیا کے بانی:
شہر گیا میں آپ نے مدرسہ طیہبہ کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف طب کی تعلیم کا مرکز
بنا بلکہ روحانی تربیت کا گہوارہ بھی ثابت ہوا۔ یہاں سے بے شمار طلبہ نے علم طب سیکھا
اور آگے چل کر بڑے بڑے معالج بنے۔ دور دراز کے علاقوں سے مریض اور شاگرد آپ کی
خدمت میں حاضر ہوتے، اور آپ نہایت شفقت، توجہ اور اخلاص سے علاج و تعلیم کا کام
انجام دیتے۔
🧑⚕️ علاج میں مہارت و ایلوپیتھ ڈاکٹروں کی حیرت:
آپ کے ہاتھ میں قدرتی شفا تھی۔ بڑے بڑے پیچیدہ امراض کا علاج آپ نے محض یونانی
ادویات اور مزاج شناسی سے کیا۔ ایلوپیتھک ڈاکٹر اکثر آپ کے معرکہ خیز کامیاب علاج
دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔
آپ کا خاصہ یہ تھا کہ امراء و غرباء میں کوئی امتیاز نہ کرتے تھے۔ جس طرح صاحب
ثروت مریضوں کو وقت دیتے، اسی محبت سے غریبوں کا بھی مفت علاج کرتے۔ یہی آپ کی
مقبولیت اور برکت کا راز تھا۔
🌿 مجرباتِ خاص (منتخب نسخے):
حکیم شاہ حمید بہاری فردوسیؒ نے کئی ایسے مجرب نسخے ترتیب دیے جنہیں طب یونانی
میں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان میں خاص طور پر آنکھوں کے امراض اور
جنسی بیماریوں کے لیے موثر علاج شامل ہیں:
نسخہ برائے رمد حار – آنکھوں کی گرمی و سوزش کا مؤثر علاج
نسخہ برائے رمد بلغمی – ٹھنڈے اثرات والی آشوبِ چشم کے لیے مفید
نسخہ برائے ورمِ اجفان – پلکوں کی سوجن و ورم کے لیے آزمودہ دوا
نسخہ برائے گلِ جسم – بدن میں ہونے والے نرم گٹھلیوں اور رسولیوں کے لیے
نسخہ برائے سوزاک (Gonorrhoea) – جنسی مرض سوزاک کے لیے موثر یونانی علاج
یہ نسخہ جات ان کے ذاتی مشاہدات، تجربات اور کلاسیکی اصولِ طب پر مبنی تھے، جن
میں سادہ اجزاء کے ذریعے پیچیدہ امراض کا حل نکالا گیا۔
🌟 یادگار اور اثرات:
آپ کی علمی و طبی خدمات کا دائرہ صرف بہار یا گیا تک محدود نہ تھا، بلکہ
بنگال، جھاڑکھنڈ، اترپردیش، اور یہاں تک کہ نیپال کے سرحدی علاقوں سے بھی لوگ آپ
سے رجوع کرتے تھے۔
آپ نے طب کو عبادت کا درجہ دیا اور تعلیم کو روحانی فیض سے جوڑ کر پیش کیا۔
🕋 روحانی نسبت و سجادگی:
بطور سجادہ نشین آپ کی خانقاہ روحانی تربیت اور باطنی اصلاح کا مرکز رہی۔
لوگوں کی جسمانی شفا کے ساتھ ساتھ دلوں کی صفائی، ذکر و مراقبہ، اور صوفیانہ تربیت
بھی آپ کی خانقاہ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
حکیم سید شاہ محمد حمید بہاری فردوسیؒ ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے طب، روحانیت، اور خدمتِ خلق کو ایک ساتھ جوڑ کر معاشرے میں ایک متوازن، بامقصد اور پر اثر کردار ادا کیا۔ آج جب ہم جدید طب کی پیچیدگیوں میں الجھ جاتے ہیں، تو ایسے حکما کی سادگی، خلوص اور علم پر مبنی طبابت ایک بار پھر روشنی دکھاتی ہے۔
0 Comments
Post a Comment