حکیم محمد حسین خان بابوپوری

ولدیت: حکیم مولوی ضامن حسین خان

علاقہ: بابوپور، ضلع سیتا پور

 

خاندانی پس منظر اور علمی وراثت

حکیم محمد حسین خان کا تعلق ایک معزز اور علمی خانوادے سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ عالی مرتبت سر راجہ علی محمد خان، والیٔ محمود آباد کے خاندان سے بھی آپ کا نسب دور سے جا ملتا ہے۔ آپ کے چچا، حکیم امداد حسین خان، اپنے وقت کے مشہور اور حاذق طبیب تھے۔

 

ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن

آپ نے کم سنی میں قرآن مجید حفظ کیا اور محض پندرہ برس کی عمر میں حافظِ قرآن بن گئے۔ عربی درسیات کی تعلیم لکھنؤ کے ممتاز علما جیسے حکیم عبد الحئی فرنگی محلی، مولوی محمد عثمان، اور مولوی نظام الدین سے حاصل کی۔ تاہم، معقولات اور فلسفہ کی تعلیم ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ خاندان کے بزرگوں نے شادی کر دی، جس کے باعث تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا اور آپ کو وطن بابوپور واپس آنا پڑا۔

 

از سر نو علم کی تلاش

اگرچہ ایک طویل مدت تک آپ تعلیم و مطالعے سے دور رہے، مگر شوقِ علم نے آپ کو دوبارہ متحرک کیا۔ اپنے کمسن بیٹے کو ساتھ لے کر لکھنؤ پہنچے، اس کی تعلیم کا انتظام کیا، اور خود بھی دوبارہ طالبعلمی کا لباس پہنا۔ آپ نے فخرالحکماء حکیم حاجی مولوی عبد العزیز لکھنوی کے خاندان سے طب کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس وقت مدرسۂ تکمیل الطب کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن جب مدرسہ قائم ہوا تو رجسٹر میں آپ کا نام سب سے پہلے درج ہوا۔ آپ نے دو سالہ نصاب مکمل کیا اور سند و اجازت مطب حاصل کی۔

 

طبی خدمات اور شاہی وابستگی

علمِ طب میں مہارت کے بعد آپ نے مختلف مقامات پر مطب قائم کیے اور پھر واپس ضلع سیتا پور آ گئے۔ 1900ء سے قبل، مہارانی گائیکواڑ بغرض علاج لکھنؤ تشریف لائیں اور حکیم عبد العزیز لکھنوی سے علاج کرایا۔ چونکہ علاج مکمل نہ ہوا، اس لیے مہارانی کی درخواست پر آپ کو ماہوار تنخواہ پر اُن کے ہمراہ ریاست لے جایا گیا۔ اگرچہ آپ عارضی بنیاد پر تعینات ہوئے تھے، مگر مہارانی کی شفقت اور علاج میں کامیابی کی بدولت مستقل ہو گئے۔

 

مہارانی صاحبہ نہ صرف دیگر علوم میں دلچسپی رکھتی تھیں بلکہ طبِ یونانی کی خاص قدر دان بھی تھیں۔ آپ کو ان کی طبی خدمات کے علاوہ جمنا بائی ہسپتال کی نگرانی بھی سونپی گئی۔

 

جنگلات میں نایاب تجربات

مہارانی صاحبہ کے ہمراہ آپ ریاست کے علاقے سون گڈہ کے جنگلات میں بھی گئے، جو اپنی زرخیزی، قدرتی حسن، اور خطرناک جانوروں کی موجودگی کے لیے مشہور ہے۔ اس مقام سے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہاں درندے اور زہریلے جانور ٹک نہیں پاتے۔ آپ نے اس علاقے میں کئی نایاب نباتات مثلاً پرسیاؤشاں، موصلی، بنفشہ، چائے، قرنفل، اور جوزبویہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور بہت سی ایسی جڑی بوٹیوں کا مشاہدہ کیا جن کی تحقیق سے طبی دنیا میں نئی راہیں کھل سکتی تھیں۔

 

تحقیقی مشاہدات

آپ کا ایک خاص مشاہدہ یہ تھا کہ آتشک کے خبیث زخم اگر نیم کے پانی سے دھوئے جائیں اور نیم کا تیل تنہا یا کسی مناسب خشک دوا کے ساتھ لگایا جائے تو زخم نہایت جلد بھر جاتے ہیں۔ یہ تجربہ آپ کے وسیع مشاہدے اور طبی سوجھ بوجھ کا عملی ثبوت تھا۔

 

 نتیجہ

حکیم محمد حسین خان بابوپوری کی زندگی عزم، علم اور خدمت کا حسین امتزاج تھی۔ ابتدائی رکاوٹوں کے باوجود آپ نے دوبارہ تعلیم حاصل کر کے نہ صرف خود کو ممتاز طبیب ثابت کیا، بلکہ شاہی خاندان اور عوام دونوں میں اعتماد بھی حاصل کیا۔ آپ کی تحقیقی نگاہ اور تجرباتی طبیعت طب یونانی کے عظیم سرمایہ میں شمار ہوتی ہے۔