حکیم مہتہ سیتا رام دت کویراج

 

تعارف

موصوف ضلع جہلم کے قصبہ بھون کے مشہور "براہمن" خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو "دت موہیال" کے نام سے معروف تھا۔ ان کے خاندان میں نسل در نسل علم و ادب کا چرچا رہا۔ عربی، فارسی اور سنسکرت زبانوں میں مہارت حاصل کرنا اس خاندان کی روایت تھی، جو کئی پشتوں سے جاری تھی۔ ان کے خاندان کے اکثر افراد محکمہ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

 

تعلیم و طب کی طرف رجحان

خاندانی روایت کے مطابق، انہوں نے ابتدا میں اردو، فارسی، انگریزی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں، انہیں طب کا شوق پیدا ہوا۔ اگرچہ ان کے بزرگ اس راستے کے خلاف تھے، لیکن انہوں نے اپنے شوق کو ترجیح دی اور بزرگوں کے مشورے کے برخلاف طب کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے ضلع جہلم کے مختلف حکیموں سے دو سال تک طبِ یونانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا، اور پھر آیورویدک (ہندوستانی طب) کی باقاعدہ تین سالہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فزیالوجی (اعضاء کی کارکردگی) اور واٹر کیور (پانی سے علاج) کی بھی تعلیم حاصل کی۔

 

پریکٹس اور اعلیٰ تعلیم کا سفر

انہوں نے راولپنڈی میں اپنا مطب قائم کیا اور علاج معالجے کا آغاز کیا۔ کچھ عرصے بعد آیورویدک میں مزید مہارت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا، جس کے باعث انہوں نے مطب بند کر کے بنارس کا سفر کیا۔ وہاں انہوں نے کافی عرصے تک آیورویدک کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں کلکتہ گئے، جہاں انہوں نے عملیات اور مجرب نسخوں کا مطالعہ کیا۔ کلکتہ میں ہی انہوں نے مشہور کویراج، یوگندر ناتھ جی ایم اے ودیا بھوشن سے ’’کوی رنجن‘‘ کی اعلیٰ سند حاصل کی۔

 

عوامی خدمت اور تصنیفی کام

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ راولپنڈی واپس آئے اور دوبارہ مطب کھول کر عوام کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے دستی کرم (حقنہ/انیما) جیسے مفید طریقہ علاج کو عام کرنے کے لیے کئی معلوماتی پمفلٹ تحریر کیے، تاکہ لوگ اس مفید علاج سے واقف ہو سکیں۔ خاص طور پر ’’شودھن ودھی‘‘ کے نام سے ان کا ایک قابلِ قدر رسالہ شائع ہوا، جس میں مغربی، یونانی اور ویدک تحقیقات کو یکجا کیا گیا تھا۔

 

اسی طرح ان کی ایک اور اہم تصنیف "سوجیون سرور (چشمۂ زندگی)" تھی، جس میں حفظانِ صحت کے اصول، شادی، حمل اور جنسی امراض پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس کتاب میں ڈاکٹری (ایلوپیتھی) اور آیورویدک طریقہ علاج کا علمی و عملی موازنہ بھی پیش کیا گیا۔

 

طبی نظریہ اور اصلاحی سوچ

موصوف اس بات کے قائل تھے کہ آیورویدک نظامِ طب میں تشخیص کے لیے یونانی طریقہ یعنی نبض شناسی اور قارورہ (پیشاب کی جانچ) کو شامل کیا جانا چاہیے، جبکہ جسمانی تشریح (anatomy) اور اعضاء کی ساخت کا مطالعہ ایلوپیتھی کے طریقے پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر دونوں نظاموں کے مفید پہلوؤں کو یکجا کر کے جدید اصولوں پر مبنی کورس ترتیب دیے جائیں، تو آیورویدک اور ایلوپیتھی دونوں شعبوں کے ماہرین یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔