حکیم مولوی سید محمد حسن کاٹھیاواڑی – ایک علمی اور طبی میراث کا روشن چراغ

پیدائش: 1876ء

سکونت: مانگرول، ضلع کاٹھیاوار

والد کا نام: حکیم مولوی سید غلام علی شاہ

 

حکیم مولوی سید محمد حسن کاٹھیاواڑی، برصغیر کے ان ممتاز اطباء میں سے تھے جنہوں نے کم عمری ہی میں علم و فضل کی معراج کو چھو لیا۔ آپ کے آباؤ اجداد علم و حکمت میں خاص شہرت رکھتے تھے اور آپ کی پرورش بھی اسی علمی ماحول میں ہوئی۔ ذہانت، فہم و فراست، طباعی اور معاملہ فہمی جیسی صفات آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں، جس کا اعتراف آپ کی تصانیف اور تحریروں سے بخوبی ہوتا ہے۔

 

ابتدائی تعلیم اور طب کی طرف رجحان

آپ نے صرف پندرہ برس کی عمر تک تمام درسی علوم سے فراغت حاصل کر لی تھی، جو اس دور کے لحاظ سے ایک بڑا علمی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے طب کی طرف رجوع کیا اور نفیسی، شرح اسباب جیسی اہم طبی کتب کا گہرائی سے مطالعہ شروع کیا۔

 

تعلیم کے دوران ہی آپ نے ایک علمی تحقیق بعنوان "آیا خطِ استوا کے قریب رہنے والے افراد اعدل الاصناب ہیں یا اقلیم رابعہ کے لوگ؟" تحریر کی، جس میں آپ نے اقلیمِ رابعہ کے باشندوں کو ترجیح دی۔ اس علمی محاکمے سے آپ کی طبی بصیرت اور تجزیاتی قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مضمون جلد ہی "رفیق الاطباء" جیسے معیاری طبی جریدے کے ذریعے شائع ہونے والا تھا۔

 

طبی خدمات اور علمی تصانیف

آپ نے متعدد معرکہ آرا علاج کیے، جن کی تفصیلات آپ نے خود مرتب کیں اور ان کی اشاعت کا ارادہ بھی ظاہر فرمایا۔ خاص طور پر "علاج الصبیان و النسوان" کے عنوان سے آپ ایک مفصل طبی مضمون تحریر کر رہے تھے، جس کا مقصد بچوں اور خواتین کی صحت سے متعلق مسائل کا سائنسی اور تجرباتی بنیاد پر حل پیش کرنا تھا۔

 

آپ کی ایک اہم علمی خدمت حکیم براکلوس کی کیمیاوی طب پر مشتمل ایک قدیم کتاب کی شرح ہے، جو شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ براکلوس ہی وہ طبیب تھا جس نے ادویہ کے جوہر، ست، روغن وغیرہ تیار کرنے کے جدید طریقے ایجاد کیے، جو بعد ازاں ڈاکٹری (ایلوپیتھی) میں بھی رائج ہو گئے۔

 

مزید برآں، آپ "کیمیائے باسلیقا" اور "سمرقندی" جیسی نایاب طبی کتب کے ترجمے اور شروح پر بھی کام کر چکے تھے، جو طب کی دنیا میں قیمتی سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔

 

علمی تواضع اور طبی اخلاقیات

اگرچہ آپ علمی حلقوں میں معروف تھے، مگر خود شہرت و ناموری سے سخت گریزاں رہے۔ اسی وجہ سے آپ کی زندگی کے مکمل حالات دستیاب نہیں ہو سکے۔ آپ نے ہمیشہ خاموشی اور انکساری کو اختیار کیا، اور اپنی توجہ محض طب، تحقیق، اور علمی تحریروں پر مرکوز رکھی۔

 

آپ کو طبی اخبارات خصوصاً تحقیقی مجلوں سے گہری دلچسپی تھی۔ ’’رفیق الاطباء‘‘ جیسے جریدے نہ صرف آپ کی علمی توجہ کا مرکز تھے بلکہ آپ ان میں مضامین لکھ کر طبی دنیا میں مفید اضافہ بھی کرتے رہے۔

 

حکیم مولوی سید محمد حسن کاٹھیاواڑی نے طبی تحقیق، تعلیم اور تصنیف کے میدان میں جو خدمات انجام دیں، وہ برصغیر کی طبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آپ کی علمی میراث آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی تحریریں، ان کا تحقیقی اسلوب، اور طب میں ان کی گہری بصیرت آج بھی اطباء، محققین، اور علم کے متوالوں کے لیے ایک قیمتی حوالہ ہے۔