حکیم محمد رحیم بخش لاہوری – (1860-Unknown) – Hakeem Muhammad Raheem Bux Lahori
تعارف
حکیم محمد رحیم بخش لاہوری (پیدائش: 1860ء) کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ان
قابلِ ذکر طبی ماہرین میں ہوتا ہے جنہوں نے محض اپنی محنت، علم اور غیر معمولی
تجربے سے طبِ یونانی میں ایک بلند مقام حاصل کیا۔ آپ کا تعلق ایسے خاندان سے تھا
جہاں طبابت کا خاص چرچا نہ تھا، تاہم اپنی کوشش اور فطری ذہانت سے آپ نے حکمت میں
وہ مقام حاصل کیا جو خاندانی طبیبوں کو بھی شاید نصیب نہ ہو۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
آپ کے والد منشی کریم اللہ تھے، جن کے خاندان میں طبابت کی باقاعدہ روایت
موجود نہیں تھی۔ تاہم آپ نے ابتدائی درسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب کی طرف رجوع کیا۔
مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جن میں حکیم علاؤالدین، حکیم احمد علی لاہوری، حکیم
نجف شاہ، اور حکیم جیون شاہ جیسے ماہرین شامل تھے۔ آپ نے ان تمام اساتذہ سے نہ صرف
یونانی طب کی درسیات پڑھیں بلکہ نسخہ نویسی اور تجرباتی حکمت کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔
مطب کا آغاز اور شہرت
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے لاہور میں تین سال تک مطب کیا، مگر وہاں خاطر
خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بعد ازاں آپ امرتسر منتقل ہوئے، جہاں آپ نے پچیس سال
تک کامیابی کے ساتھ مطب کیا۔ امرتسر میں آپ کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ مریضوں کا
ہجوم رہتا اور دیکھنے کی فرصت مشکل سے ملتی۔ آپ نے 1910ء میں زبدۃ الحکماء کے
امتحان میں شرکت کی اور نہایت کامیابی سے سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
کتے کے کاٹے کا ذاتی تجربہ اور حیرت انگیز علاج
ایک انوکھا واقعہ
جون 1901ء کو، جب آپ ایک مریض کو دیکھ کر واپس آرہے تھے، امرتسر میں ایک دیوانے
کتے نے آپ کو کاٹ لیا۔ آپ نے ابتدائی طور پر زخم پر بارود ڈال کر آگ لگا دی، اور
فوری طور پر کسولی
(Kasauli) روانہ ہو گئے جہاں ایسے مریضوں کا جدید طریقہ
علاج کیا جاتا تھا۔
کسولی کا علاج
کسولی میں چوبیس دن تک "ہیپوڈرمک سرنج" کے ذریعے پچکاریاں لگائی گئیں،
اور آپ کو چھبیس دن بعد رخصت دے دی گئی۔ تاہم علاج کے بعد بھی آپ کے جسم میں تشنج،
بے خوابی، خوف، پیاس، اور ذہنی انتشار جیسے خطرناک علامات ظاہر ہونے لگیں۔ طبِ جدید
بے اثر رہی اور حالت بگڑتی چلی گئی۔
رحیمی بوٹی کا کامیاب استعمال
اس حالت میں، جب سب امیدیں ختم ہو چکی تھیں، آپ نے ایک جڑی بوٹی کا استعمال کیا
جس کی چھال سے تیار کردہ روغن زرد آپ نے خود استعمال کیا۔ اس سے شدید قے اور اسہال
کے بعد آپ کی حالت میں حیرت انگیز بہتری آئی اور صرف چھ دن بعد آپ مکمل صحت یاب ہو
گئے۔
"میں نے اپنی تجویز سے اس کا نام 'رحیمی بوٹی' رکھا ہے۔ یہ دوا سانپ اور کتے کے
کاٹے کے لیے اکسیر ثابت ہوئی ہے۔"
رحیمی بوٹی کی خصوصیات
یہ بوٹی جالندھر اور پھگواڑہ کے درمیانی علاقوں میں کھیتوں میں عام پائی جاتی
ہے۔ اس کی جڑ کنول کی جڑ سے مشابہ ہوتی ہے اور اسی کی چھال بطور دوا استعمال کی
جاتی ہے۔ اس کا استعمال نہ صرف مارگزیدہ افراد کے لیے مفید ہے بلکہ آتشک، نقرس،
ذات الریہ، خارش، ورم جگر، اور کئی دیگر امراض میں بھی شفا بخش ثابت ہوا۔
طبی خدمات اور کامیابیاں
آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے محقق بھی تھے۔ آپ نے اپنے
تجربے سے ایسے مجرب نسخے تیار کیے جو بعد میں یونانی دواخانوں میں بڑی مقبولیت
حاصل کر گئے۔ "رحیمی بوٹی" جیسے تجربات سے آپ نے ثابت کیا کہ تجربہ،
مشاہدہ اور علم کے امتزاج سے ایسی راہیں نکلتی ہیں جو انسانی جانوں کو بچا سکتی ہیں۔
حکیم محمد رحیم بخش لاہوریؒ طبِ یونانی کی تاریخ میں ایک روشن ستارے کی مانند
ہیں۔ ان کی زندگی کا وہ واقعہ جس میں انہوں نے دیوانے کتے کے زہر سے خود کو بچایا
اور پھر اسی دوا سے کئی جانیں بچائیں، اس بات کی علامت ہے کہ خلوص، علم، تجربہ اور
تحقیق جب یکجا ہوں تو انسان کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔
اہم کلیدی الفاظ:
حکیم محمد رحیم بخش لاہوری
یونانی طب کے ماہرین
کتے کے کاٹے کا علاج
رحیمی بوٹی
طبِ قدیم کے عجائبات
امرتسر کے حکیم
طب یونانی کی تاریخ
نوٹ اس
جڑی بوٹی کا قدیم و جدید طبی کتب بشمولاً مخزن الادویہ، قانون، محیط اعظم اور مفردات
کی کتابوں میں کہیں اس کا ذکر نہیں ملا۔ مزید تحقیق و معلومات درکار ہیں۔
0 Comments
Post a Comment