حکیم مولوی حافظ محمد ادریس لکھنوی – علم، حکمت اور روحانیت کا روشن مینار
حکیم مولوی حافظ محمد ادریس لکھنوی (پیدائش: 1859ء) ضلع لکھنؤ کے قصبے نگرام
سے تعلق رکھنے والے ایک جلیل القدر عالم، ماہر حکیم اور باطن بین بزرگ تھے۔ آپ علم
و فضل، سادگی، اخلاص اور روحانیت کا ایسا امتزاج تھے جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
آپ کا شمار ان چند اہلِ علم و عرفان میں ہوتا ہے جنہیں نہ صرف طب و دین میں عبور
حاصل تھا بلکہ روحانی مقام پر بھی بلند مرتبہ حاصل تھا۔
خاندانی پس منظر
آپ کے والد، حکیم مولوی حافظ عبد العلی، اپنے وقت کے مشہور عالم، باطن شناس
اور معروف طبیب تھے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے علمی و روحانی خانوادے سے تھا جہاں دینی
اور طبی علوم کی وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ روحانیت آپ کے خون میں رچی بسی
تھی۔ اگرچہ آپ خود مرید بنانے کے قائل نہ تھے، تاہم روحانی کشش اور باطنی اثر ایسا
تھا کہ بہت سے لوگ از خود آپ کی طرف مائل ہو کر مرید ہو جاتے تھے۔
ابتدائی تعلیم و تربیت
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد کے شاگرد مولوی خادم رسول سے حاصل کی، اور
اس کے بعد خود اپنے والد محترم سے دینی و طبی علوم میں استفادہ کیا۔ تمام درسی
کتابیں باقاعدہ سبقاً سبقاً پڑھی تھیں اور ہر موضوع کو گہرائی سے سمجھا تھا۔ طب کی
تعلیم بھی اپنے والد ہی سے حاصل کی اور حکمت کا عملی تجربہ انہی کے زیرِ تربیت
حاصل کیا۔
اعلیٰ دینی تعلیم
عام دینی تعلیم میں آپ کو یہ شرف حاصل تھا کہ آپ نے اپنے دور کے عظیم محدث، فقیہ
اور مجدد مولانا عبد الحئی لکھنوی (مجدد العصر ابو الحسنات) سے تعلیم حاصل کی، جن
کا درس نہ صرف ہندوستان بلکہ عرب دنیا تک مشہور تھا۔ مولانا عبد الحئی لکھنوی کے
حلقہ درس کو علمی دنیا میں جو اعتبار حاصل تھا، وہ اس زمانے میں کم ہی کسی کو نصیب
ہوا۔ وہاں سے آپ نے سندِ فضیلت حاصل کی۔
طبیعت، مشرب اور عملی زندگی
آپ کا مشرب نہایت سادہ، گوشہ نشین اور دنیا داری سے بے نیاز تھا۔ نگرام ہی میں
مقیم رہے، جہاں طلبہ کو دینی و علمی تعلیم دیتے اور ساتھ ساتھ طب کا شغل بھی جاری
رکھا۔ تاہم علاج معالجے میں نہ کسی سے کچھ لیتے، نہ ہی کسی کے ہاں جانا پسند کرتے۔
آپ نے خود کو شہرت، پیسہ اور ریاکاری سے ہمیشہ دور رکھا۔
اگرچہ آپ کو متعدد دینی مدارس کی جانب سے تدریس کی دعوتیں اور معقول مشاہرے کی
پیشکشیں بھی ہوئیں، مگر آپ نے ان میں کسی کی بھی پرواہ نہ کی اور سادگی و قناعت کو
ترجیح دی۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو زہد و استغناء سے مزین تھا۔
تصنیفی خدمات
آپ ایک صاحبِ طرز مصنف بھی تھے۔ آپ کی دینیات پر لکھی گئی تصانیف کی تعداد تیس
کے قریب بتائی جاتی ہے، تاہم بدقسمتی سے یہ کتابیں تالیف یا اشاعت کے مرحلے تک نہیں
پہنچ سکیں۔ آپ کا خاص شغف یہ تھا کہ کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت اس پر حاشیہ
لکھتے اور نوٹ تحریر فرماتے، جو خود ایک علمی خزانے کی حیثیت رکھتے تھے۔
اختتامیہ
حکیم مولوی حافظ محمد ادریس لکھنوی نہ صرف ایک طبیب تھے بلکہ ایک کامل درویش،
عالمِ ربانی، اور ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ ان کا علمی، دینی اور روحانی سرمایہ آنے
والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی سادہ زندگی، اعلیٰ فکری معیار، بےلوث تدریس
اور طبی خدمات یقیناً قابلِ تقلید ہیں۔
0 Comments
Post a Comment