حکیم سید قاسم علی دہلوی

ایک سیّاح طبیب، فاضل علومِ طب، وارثِ حکمتِ خاندانی

ولدیت: سید حسین علی رسالدار

 

برصغیر کے ممتاز و متبحر اطباء میں حکیم سید قاسم علی دہلویؒ کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزر کر علمِ طب یونانی کو نہ صرف سیکھا بلکہ اسے عملی تجربات کے ذریعے نکھار کر عوام الناس کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔

 

خاندانی پس منظر و ابتدائی زندگی

حکیم صاحب کا خاندان دہلی میں غدر 1857ء سے پہلے ممتاز عہدوں پر فائز رہا اور اعلیٰ سماجی حیثیت و شہرت رکھتا تھا۔ آپ کی ولادت 1848ء میں دہلی میں ہوئی۔ جب غدر کا طوفان اٹھا تو آپ صرف نو برس کے تھے۔ انگریزوں نے دہلی کے پرانے باشندوں کو جبراً شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اس ہنگامے میں آپ کچھ عرصہ اپنے ماموں کے پاس دہلی ہی میں مقیم رہے، لیکن حالات کے پیش نظر دہلی سے ہجرت کر کے پہلے انبالہ اور پھر لدھیانہ چلے گئے۔

 

رسمی تعلیم

لدھیانہ میں آپ نے مشن اسکول میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا۔ اسی شہر میں تعلیم کے دوران آپ کے اندر نظم و ضبط، تحقیق، اور مطالعہ کی عادت پروان چڑھی۔

 

سرکاری ملازمت اور طب کی طرف رجحان

جب آپ کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی تو آپ ریاست کپور تھلہ میں ملازم ہو گئے۔ کچھ عرصہ ملازمت کے بعد آپ نے وہاں سے استعفیٰ دیا اور دوبارہ لدھیانہ آ گئے۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں آپ نے طب کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی تھی، لیکن کوکا پنڈت کی ایک طبی کتاب آپ کے مطالعے میں آئی، جس نے آپ کو علمِ طب کے بنیادی اصولوں سے روشناس کرایا۔ یہ مطالعہ آپ کے شوقِ طب کا محرک بنا۔

 

خاندانی رشتہ اور علمِ طب کی باضابطہ تعلیم

قسمت نے یاوری کی کہ آپ کی شادی ایک مشہور طبیب خاندان میں ہوئی۔ آپ کے سسر حکیم مرزا آغا علی خان، حکیم بو علی خان کے پوتے اور بلند پایہ حکیم تھے۔ اس رشتے نے آپ کو طب کی باضابطہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آپ نے ان ہی سے درسی کتب پڑھیں اور کئی سال تک اُن کے ساتھ مطب میں بیٹھ کر عملی تجربات حاصل کیے۔

 

مطبی خدمات اور سیاحت

آپ نے تقریباً بیالیس برس تک طبابت کی عملی خدمات انجام دیں۔ یہ مطبی سلسلہ آپ نے اپنے استاد کی اجازت سے باقاعدہ طور پر شروع کیا تھا۔ تاہم، آپ کسی ایک شہر یا مقام پر محدود نہیں رہے۔ آپ کو سیر و سیاحت سے خاص شغف تھا، اسی باعث آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں میں قیام کیا اور ہر مقام پر عوام الناس کو اپنی طبی مہارت سے فائدہ پہنچایا۔ آپ نے جن شہروں میں مطبی خدمات سرانجام دیں اُن میں ملتان، پشاور، حصار، دہلی، لکھنؤ، بنارس، فیروزپور، جلال آباد اور آخر میں کلکتہ شامل ہیں، جہاں غالباً آپ کا آخری قیام رہا۔

آپ جہاں بھی رہے، وہاں کے عوام نے آپ کی طبابت سے استفادہ کیا۔ آپ کی طبی مہارت، تجربہ، اخلاق اور تشخیص کی صلاحیت نے ہزاروں مریضوں کو شفا دی۔

 

اختتامیہ

حکیم سید قاسم علی دہلویؒ کی زندگی ایک جہدِ مسلسل، سیرتِ حکیمانہ اور خاندانی شرافت کا حسین امتزاج تھی۔ آپ نے مطب کو صرف ذریعہ معاش نہیں بلکہ خدمتِ خلق اور اصلاحِ احوالِ جسم و جان کا ذریعہ بنایا۔ ان کی سیاحتی طبی خدمات، ان کے وسیع تجربات، اور ان کے اخلاص و محنت کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

 

تحریر: غلام محی الدین بسلسلہ تحقیقاتِ تاریخِ طب یونانی