حکیم سید فتح علی شاہ لاہوری

شاہی طبیب، ماہر فلسفہ و ہیئت، و خاندانی ورثۂ حکمت کے امین

ولدیت: حکیم سید احمد شاہ

نسب: مشہور خاندان حکیم سید ولی شاہ لاہوریؒ

 

برصغیر کے مایہ ناز اطباء اور شاہی معالجین میں حکیم سید فتح علی شاہ لاہوریؒ ایک درخشندہ ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق لاہور کے مشہور و معروف خاندانہائے اطباء میں سے ایک ایسے علمی و طبی خاندان سے تھا جس نے صدیوں تک علم و حکمت کی شمع روشن رکھی۔ اس خاندان کی علمی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کا ایک محلہ آج بھی حکیم سید ولی شاہ مرحوم کے نام سے موسوم ہے۔

 

خاندانی پس منظر و علمی وراثت

آپ کے دادا حکیم سید ولی شاہؒ علم طب، فلسفہ، ریاضی اور ہیئت جیسے علوم میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ریاست جموں و کشمیر کے فرمانروا مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دربار میں طبیبِ خاص مقرر تھے، جہاں انہیں تین ہزار روپے ماہوار تنخواہ دی جاتی تھی — جو اُس وقت کے حساب سے ایک شاہانہ مشاہرہ تھا۔

 

آپ کے والد حکیم سید احمد شاہ بھی ریاست جموں میں سرکاری ملازمت پر فائز تھے، اور ریاست بھر کے شفاخانوں کے قیام و انتظام میں اُن کی خدمات نہایت اہم رہیں۔ انہی کی وساطت سے جموں میں طبِ یونانی کے ادارے اور شفا خانے قائم ہوئے اور پھلے پھولے۔

 

تعلیم و تربیت

حکیم سید فتح علی شاہؒ نے ابتدائی تعلیم علومِ مروجہ درسیہ میں حاصل کی، اور مختلف نامور اساتذہ سے فیض پایا، جن میں:

مولوی حسن رضا

مولوی قلندر علی پانی پتی

مولوی عبداللہ کشمیری (جو اپنے زمانے کے فاضلِ اجل اور علامہ گزرے ہیں)

 

طب کی تعلیم آپ نے اپنے خاندانی اساتذہ سے مکمل طور پر حاصل کی۔ آپ کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں علم، تحقیق، تدبر اور خدمتِ خلق بنیادی اقدار سمجھی جاتی تھیں۔

 

ریاستی خدمات

صرف 22 سال کی عمر میں آپ کو ریاست جموں میں طبیبِ شاہی مقرر کر دیا گیا۔ اپنی صلاحیت، خاندانی اعتماد اور انتظامی قابلیت کی بنیاد پر آپ کو بہت جلد:

 

تمام شفاخانوں اور مدارس کا انتظام

دواخانہ شاہی (شاہی سطح پر ادویہ سازی کا مرکز)

دوائی خانہ ہندی (جہاں اعلیٰ درجے کے کشتہ جات تیار ہوتے تھے)

 

کا مکمل نگران بنا دیا گیا۔ یہ تمام امور آپ کے زیرِ نگرانی بہترین انداز میں چلتے رہے۔

 

تاہم، جب مہاراجہ رنبیر سنگھ کا انتقال ہوا، تو آپ کچھ عرصہ بعد دل کی بے قراری اور مزاج کی بے لچک طبیعت کے باعث ریاست جموں کو خیر باد کہہ کر لاہور واپس آ گئے۔

 

مطب و عوامی خدمات

لاہور واپس آ کر آپ نے مستقل مطب شروع کیا، جو نہایت کامیاب رہا۔ آپ کی خوش اخلاقی، انکساری، اور مہارت کی بدولت ہر آنے والا مریض مطمئن ہو کر واپس جاتا۔ عوام اور خواص آپ کے معالجہ، خوش مزاجی اور علمی وقار کے گرویدہ تھے۔

 

خاندانی تسلسل

آپ کے بھتیجے حکیم سید اصغر علی شاہ بھی لاہور ہی میں مطب کرتے تھے اور اسی خاندانی روایت کو آگے بڑھا رہے تھے۔

 

مجرباتِ خاص

آپ کے تیار کردہ چند مؤثر اور معروف مجربات درج ذیل ہیں:

 

کشتہ ابرک:

مخصوص طور پر آتشک (Syphilis) اور وجع المفاصل (جوڑوں کے درد) کے لیے

 

کشتہ عقیق

نزلہ و زکام جیسے بظاہر عام لیکن پیچیدہ امراض کے لیے نہایت مفید

 

کشتہ فولاد

اکثر امراضِ صعبہ باردہ (ٹھنڈی مزاج والی دیرینہ بیماریاں) کے لیے مؤثر دوا

 

یہ تمام مجربات نہ صرف طبی کتب کی روشنی میں تیار کیے گئے بلکہ تجربات اور مشاہدات سے ثابت شدہ تھے۔

 

حکیم سید فتح علی شاہ لاہوریؒ صرف ایک طبیب نہ تھے بلکہ ایک علمی روایت کے امین، شاہی معالج، منتظم، اور خادمِ خلق تھے۔ آپ نے علم و حکمت کو نہ صرف خود سیکھا بلکہ اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ آپ کی زندگی طبِ یونانی کے سنہرے دور کی جھلک پیش کرتی ہے، اور آج بھی اُن کے مجربات و خدمات اطباء کے لیے ایک قیمتی ورثہ ہیں۔

 

تحریر: غلام محی الدین بسلسلہ تحقیقاتِ تاریخِ طب یونانی